کالمسٹ: سید عامر شاہ
اب تک بیش بہا کالم نگاروں نے لفظ ”عذابِ زن“ کو اپنی قلم کی روشنی سے اُجاگر کیا
ہے۔ مگر دورِ جہالت سے اب تک عورت صرف ایک ایسی چیز ہے جسے یہ زمانہ اپنے مختلف
حالاتوں میں استعمال کرتا آیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت ہمیشہ خطیر ناانصافیوں کا
شکار رہی ہے۔ ہر لڑکی جب پیدا ہوتی ہے تو اُسے اپنی پیدائش سے لے کر مرتے دم تک
بہت سے مسائل درپیش آتے ہیں۔ جب وہ والدین کے گھر ہوتی ہے تو اُسے یہ احساس دلایا
جاتا ہے کہ اُس کا اصل گھر اُس کے شوہر کا ہوتا ہے۔ اُسے یہ درس بھی دیا جاتا ہے
کہ وہ اپنے والدین کے پاس امانت کے طور پر ہوتی ہے اور اُسے ایک نہ ایک دن اپنے
والدین کا گھر چھوڑ کر جانا ہوتا ہے۔ مسلسل یہ باتین سن کر پھر ہر لڑکی اپنی
آنکھوں میں خواب سجائے ، اپنے ہونے والے شوہر کا انتظار کرنے لگتی ہے۔ اِس کے بر
عکس اُس کی عمر کھیل کود کی ہوتی ہے، تب معاشرے کا ہر فرد اپنے ساتھ رشتوں کی لمبی
لمبی لائنیں لگا کر اُس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ روایتی طور پر آنے والا ہر رشتہ اپنے
ساتھ ہزاروں اُولجھنیں بھی لاتا ہے۔ یعنی قدرتی نقص والی لڑکی کے علاوہ ٹھیک لڑکی
کو بھی ہر آنے والا رشتہ ٹھکرانے لگتا ہے۔ بس یہیں سے تمام لڑکیاں ایک ساتھ احساسِ
کمتری کے سفر پر چلنے لگتی ہیں۔ جو بھی رشتہ آتا ہے تو بظاہر اُس رشتے میں کچھ خاص
شفافیت نہیں ہوتی مگر آنے والا ہر رشتہ اپنے ساتھ ڈھیر ساری شرائط لاتا ہے۔ شرائط
بھی کچھ یوں کہ اُنھیں پورا کرتے کرتے ہر رئیس انسان ہار مان سکتا ہے۔ اِن اَن گنت
شرائط کے ساتھ جب ایک لڑکی اپنے تمام رشتوں کو بھلا کر اپنے شوہر کے گھر جاتی ہے تو
اُسے ساس یہ کہتی ہے ”بہو زرا دھیان سے رہنا کیونکہ یہ تمہارے بات کا گھر نہیں
بلکہ میرے بیٹے کا گھر ہے۔“
اِس قسم کے جملے جب ایک عورت سنتی ہے تو اُس کے ذہن کے دریچوں
میں جو خواب سجے ہوتے ہیں، ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ تاہم وہ ایک نئی آس لگائے اپنی
اُولاد کے گھر کا انتظار کرتی ہے۔ جب اُولاد لاکھ قربانیوں کے ساتھ بڑی ہو جاتی ہے
تو اُولاد کے بجائے ماں کو اُن کے اشاروں پر چلنا ہوتا ہے۔ یعنی عورت ہمیشہ ایک
معصوم کلی کی طرح ہر ایک مکان کو گھر کی
شکل دے کر یہ سمجھتی ہے کہ شاید یہ سب گھر اُس کے رہنے کا آشیانہ ہوتے ہیں۔ مگر
پتھروں کے زمانوں میں جو عورت ہر مکان کو گھر کی شکل دیتی تھی، آج بھی وہ عورت ہر
گھر کو بدستور ترستی رہتی ہے۔
ہم اخباروں کی سرخیوں میں ہمیشہ پڑھتے ہیں“آج کی تازہ خبر
کسی گھر میں مٹی کے تیل کا چولہا پھٹا، جل کے مر گئی ایک بہر۔” یعنی پرائی امانت
اور کسی کی لائی ہوئی بہن بیٹی۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ گھر میں اور عورتیں یعنی
ساس اور نندیں بھی تو ہوتی ہیں تو چولہا صرف بے گانی امانت کےلیے ہی کیوں پھٹتا
ہے؟۔ اپنی پیدا کی ہوئی بیٹی یا بذاتِ خود ساس اُس چولہے میں جل کر کیوں نہیں مر
جاتی؟۔ اِس کے برخلاف بیشتر شادی شدہ مرد جب یہ محسوس کرلیں کہ اُن کی ازواج کے
حسن میں کمی آجائے تو وہ کسی دوسری عورت کی نئی مسکراہٹ کے طلبگار ہو جاتے ہیں۔
کہتے ہیں شادی شدہ عورت لاشعوری طور پر ہمیشہ اپنے خاوند کے ہر فعل سے باخبر رہتی
ہے۔ تاہم عورت پھر بھی اِن تمام تقاضوں کے باوجود اپنی ذمے داریوں سے انحراف نہیں
کرتی۔ یعنی وہ بے لوث خدمت گار ہوتی ہے۔ وہ اپنے والدین کی خدمت کرتی ہے بغیر کسی
لالچ کے ، اپنے شوہر سمیت اپنے سسرال والوں کے ناز نخرے سہتی ہے اور اپنے بچوں کے
لیے اپنی زندگی برباد کر دیتی ہے وہ بھی بغیر کسی لالچ کے۔ تو میرا سوال صرف اُن
مردوں سے ہے کہ جو عورتیں اُن کے ڈھیر سارے بچوں کو پالتی ہیں، اپنے سسرال کی
بلاوجہ ٹکے ٹکے کی باتیں سنتی ہیں۔ اگر وہی عورتیں کہیں کہ اُنھیں بھی اپنے شوہروں
کی طرح کسی غیر مرد میں دلچسپی لینا ہے تو بتائیں کسی بھی عورت کا یہ جملہ ہر غیرت
مند شوہر کے لیے کیسا ہو گا؟۔
میں مانتا ہوں کہ کچھ لڑکیاں اپنے آپ کواشتہار بنا کر جب
گھر سے نکلتی ہیں تو لڑکے اُنھیں چھیڑتے ہیں۔ مگر کچھ لڑکے تو برقعہ پہنی لڑکیوں
کو بھی نہیں چھوڑتے۔ بلکہ برقعہ پہنی لڑکیوں کا تو دور دور تک پیچھا کرتے ہیں چاہے
نتیجتاً اگلے چوک پر اُس برقعے میں اُن کی اپنی سگی ماں ہی کیوں نہ نکل آئے۔ اور
ویسے بھی ایسے لڑکوں کے بارے میں کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہےکہ ایسے لڑکوں کا ذہن
کچھ یوں ہوتا ہے کہ اگر آپ کسی جھاڑی کے اُوپر کپڑا ڈال دیں تو یہ لڑکے وہاں سارا
سارا دن کھڑے رہیں گے کہ شاید اِس میں کوئی حرکت ہو جائے۔
جب ایک مرد اخلاق سے گرے ہوئے ایسے کام کرتا ہے تو وہ اپنے
ضمیر کو یہ کہہ کر خاموش کروادیتا ہے کہ وہ تو مرد ہے اور مرد کے لیے یہ دنیا
تخلیق کی گئی ہے۔ اِس دلاسے پر وہ ہر ایک خیر اخلاقی کام کر جاتا ہے۔ مگر جب ایک
عورت کوئی ایسا کام کر جاتا ہے۔ مگر جب ایک عورت کوئی ایسا کام کر دے تو سب مرد
حضرات اُسے ازیت کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ جب عورت اپنے حق میں صفائی دیتی ہے تو
اُسے یہ چند جملے کہہ کر آخرکار مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ “عورت تو پابند ہے، وہ تو
مقید ہے اور اُسے تو پیدا کیا گیا ہے گھر کی چاردیواری کے تقدس کے لیے۔ اُسے تو
گھر میں ہی رہنا ہو گا چاہے کچھ بھی ہوجائے، عورت کا کام ہے انسانوں کو جنم دے کر
معاشرے کو اچھی نسل دینا، اور مرد کو جب باری تعالیٰ نے پیدا فرمایا تو فرمایا کہ
اے مرد ذات! یہ دنیا اور خصوصاً عورتیں تو تیرے لیے پیدا فرمائی گئی ہیں، اِس لیے
تجھے چار چار شادیوں کا حق حاصل ہے۔
آخر کیوں ایسی بے انصافیاں صرف عورت کے ساتھ ہی پیش آتی
ہیں۔ اگر چار شادیوں کے بارے میں بات کی جائے تو حقیقت یہ ہے کہ عورت میں صبرو
قناعت ہے۔ وہ کسی ایک مرد کے نام پر اپنی پوری زندگی گزار سکتی ہے۔ نہ صرف اُس کے
جیتے جی بلکہ مرنے کے بعد بھی اُس کے بچوں اور اُس کی عزت کو سنبھال سکتی ہے اور
اُس کے گھر کی چاردیواری میں ہمیشہ کے لیے رہ سکتی ہے۔ مگر کچھ مردوں کی فطرت کو
اللہ تعالیٰ جانتے تھے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے کچھ ایسے مرد تو
تخلیق کر دئیے ہیں۔ لہذا اِ ن مردوں کا ذہنی کیڑا اِنھیں چین سے رہنے نہیں دے گا
اور یہ اپنی عورتوں کے باوجود باہر دوسری عورتوں کے پاس جائیں گے۔ اِس لیے اسلام
نے اِن مردوں کو صرف گناہوں سے بچانے کے لیے چار چار شادیوں کی اجازت دی۔ مگر ایسے
مرد ذات اِسی فلسفے کو کسی اور شکل میں بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر چار چار
شادیوں کی دھمکی دے کر یہ مرد اپنی بیویوں کو قابو میں رکھتے ہیں۔ لفظ طلاق کو
اپنا ہتھیار بنا کر ایسے مرد اپنی بیویوں کو مظلوم سمجھتے ہیں اور اگر کسی عورت سے
تھوڑی سی غلطی ہو جائے تو اُس کے کردار پر طلاق کا سیاہ دھبہ لگا دیتے ہیں۔ اگرچہ
دیکھا جائے تو کوئی بھی عورت اپنی خوشی سے یہ داغ نہیں لگاتی مگر زمانے کی بددیانتیاں
اور ناانصافیاں اُسے مجبور کرتی ہیں کہ وہ طلاق جیسی زلت کا طوق پہنے۔ اِسی طرح چارشادیوں
کا بار بار ذکر کر کے کچھ شوہر اپنی بیویوں کو ہمیشہ اپنے آپ سے کمتر سمجھتے ہیں۔
تو ایسے مرد شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ چار چار شادیوں کی اجازت صرف اُن مردوں کو
حاصل ہوتی ہے جو چار شادیاں بہتر طریقے سے
سنبھال سکتے ہیں۔ مگر ایسے جہلاءمرد اپنی پہلی بیوی اور بچوں کے منہ سے
نوالہ چھین کر دوسری عورتوں کے منہ میں ڈال دیتے ہیں۔ یعنی جب وہ کسی دوسری عورتوں
سے ملتے ہیں تو رسماً یہی کہتے ہیں۔
”میری شادی میری
پسند سے نہیں ہوئی، ابھی میں بہت چھوٹا تھا جب میرا نکاح کیا گیا، خدا کی قوم
اُس عورت سےآج تک میری انڈرسٹینڈنگ نہیں ہوسکی۔“
پھراِن جملوں سے جب دوسری عورتیں شادی کے لیے راضی ہو جاتی
ہیں تو مرد اپنی دوسری بیوی سے کہتا ہے“بیگم کمرومائز کرو” اور پہلی والی کو کہتا
ہے“بیگم مجھے معاف کر دو مجھ سے تو غلطی ہو گئی” تو بظاہر ہمارے معاشرے کا تقریبا
ہر مرد دوسری شادی اسلامی نقطہ نظر سے نہیں
کرتا۔
کہتے ہیں صرف نیک مردوں کو جنت میں 70 حوریں ملتی ہیں۔ مگر
میں کہتا ہوں کہ عورت کو اِسی دنیا میں وہ مقام مل جاتا ہے جس کی برابری کوئی مرد
نہیں کرسکتا۔ یعنی عورت جب ماں بنتی ہے تو اُس کے قدموں تلے جنت آجاتی ہے۔ اور تو
اور نیک مردوں کو تو صرف چند حوریں ملتی ہیں مگر نیک عورتوں سمیت بری عورتوں کو
بھی ماں کا درجہ مل جاتا ہے۔ سو اِس حساب سے دیکھا جائے تو مرد زیادہ خوش نصیب
عورت ہوتی ہے۔ مرد کو جنت میں حوریں ملتی ہیں جبکہ عورت کے قدموں تلے پوری کی پوری
جنت ہوتی ہے۔ خیرٗ بہت سے مرد اِس بات سے اتفاق نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ عورت
بذاتِ خود ماں نہیں بنتی، تاہم اُس کے ماں بننے میں مرد کا ساتھ ہونا بہت ضروری
ہوتا ہے۔ مگر میں اُن سب مردوں کو ایک چھوٹی سی مثال دے کر ہمیشہ کے لیے خاموش
کروادینا چاہتا ہوں کیونکہ بہت سے مرد دینا میں ایسے ہیں جو بذاتِ خود مرد ہوتے
ہوئےبھی کسی عورت کو ماں نہیں بناسکتے۔ لیکن جس عورت کے بخت میں اگر اللہ تعالیٰ
نے جنت کرنی ہو، تو اُسےحضرت بی بی مریم کا روپ دے کر اُس کے بدن سے اللہ تعالیٰ
ایک بار پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے نیک پیغمبر انسان کو دوبارہ پیدا کرسکتا
ہے۔ تو تمام مرد حضرات اِس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ عورت اگر ماں ہے تو اُسے حضرت
بی بی ہاجرہ سمجھا جائے، اگر وہ ایک بہن ہے تو اُسے حضرت بی بی زینب ؓ، اگر وہ ایک
بیٹی ہے تو اُسے حضرت بی بی فاطمہؓ اور اگر وہ ایک بیوی ہے تو اُسے حضرت ایوب علیہ
السلام کی چوتھی بیوی یعنی حضرت بی بی رحیمہ سمجھا جائے۔ جاتے جاتے میں شادی شدہ
افراد کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جب میاں بیوی آپس میں سمجھوتے سے نہیں رہیں
گے، انڈرسٹینڈنگ سے نہیں رہیں گے، اپنے گھر کی باتیں دوسرے لوگوں کو جاکر بتائیں
گے، اپنے گھر کی چاردیواری میں چور دروازے دیں گے تو اُس گھر کو میں تو کیا بلکہ
اِس دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی ٹوٹنے سے روک نہیں سکتی۔