کالمسٹ: سید عامر شاہ
کچھ دن پہلے پاکستان میں الیکشن برپا تھے۔ مختلف ڈیرے آباد
اور لوگوں کے ہاتھوں میں تازہ حقے تھے۔ بہت سے انجان لوگوں کی بلاوجہ خدمت کی جا
رہی تھی۔ ہر رنگ ونسل کے تمام انسانوں کو ترقی کی راہ دیکھائی دے رہی تھی۔ ایسا
لگتا تھا ہ ہمیں ایک نیا پاکستان ملنے والا تھا مگر 11 مئی کے دن ہمیں اُمیدِ سحر
کے بجائے وہی پرانہ پاکستان ملا جسے ہر حال میں بدلنا تھا۔ 1993ء کے انتخابات سے
لے کر اب تک لوگوں کے نظریات ایک جیسے تے۔ یعنی ہر صوبہ اپنی شناخت بنانے کے لیے
صرف اُس پارٹی کو ہار بار منتخب کرتا ہےجو صرف اُسی کے لیے ہی مفید ہوتی ہے۔ چاہے
وہ پارٹی دیگر صوبوں کی ردی بھر ترقی دے نہ دے کسی کو اِس سے کیا ؟۔ اگر ہم
پاکستان کے شہری کہلاتے تو سابقہ انتخابات کی طرح اِس الیکشن میں بھی ہم ایک ایسی
پارٹی کو اقتدار میں لاتے جو صرف ایک صوبے تک محدود نہ وہوتی بلکہ وہ پورے ملک کے
لیے کار آمد ہوتی۔ مگر افسوس کہ اِس بار بھی نتائج وہی ہیں جو 2008ء کے الیکشن میں
ہمیں موصول ہوئے تھے۔ اگر صوبہ خبیر پختونخوا کی بات کی جائے تو اِس صوبے کی حقیقی
منعوں میں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے۔ 1993ء کے انتخابات میں اِس صوبے نے
اپاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، 1997ء میں پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایل ایم
این)، 2002ء میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور 2008ء میں عوامی نیشنل پارٹی (اے
این پی) کو کئی مواقع دیئے۔ نتیجتاً اِس صوبے میں چند تبدلیوں کے علاوہ کچھ اور
سامنے نہ آسکا۔ سابقہ الیکشن کے بعد اِس صوبے کو ریڈ زون کا نام دیا گیا۔ یہاں سے
سب زیادہ دہشت گردی پائی جاتی تھی۔ بم دھماکوں کے علاوہ کئی ایسے حوادث بھی دیکھنے
کو ملتے جنہیں بیان کرنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ ڈران حملوں کی فہرست میں کئی
لواحقین کو اُن کے پیاروں کی لاشیں بھی دیکھنے کو نصیب نہ ہوئیں۔
اب چلتے ہیں سندھ کی جانب۔ اِس صوبے میں بھی یہی صورتِ حال
رہی۔ مہاجروں کی حکومت میں سندگی عوام ہر ظلم وستم کا نشانہ بنتی رہی۔ جب اِس صوبے
میں کوئی حادثہ پیش آتا تو تمام سیاستدان اُس حادثے کی خوب لفظی مزمت کرتے۔ حالانکہ
اُنھیں چاہیے تھا کہ وہ ہر ایک حادثے کا بھر پور نوٹس لیتے۔ مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ
جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ سابقہ حکومت نے خبیر پختونخوا کی طرح سندھ کی عوام کے
لیے بھی کچھ مثبت پیش رفت نہ کی۔ ملک بھر کے شہروں سمیت کراچی میں بھی 2008ء کے
الیکشن کے بعد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
کہا جاتا ہے کسی ملک کی معیشت اُس کے ترقیاتی شہروں سے
وابستہ ہوتی ہے۔ لہٰذا دیکھا جائے تو معیشت کے لحاظ سے کراچی شہر پاکستان کی معیشت
میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اِس شہر میں سبگ سے زیادہ انڈسٹریاں، مختلف ملز،
کارخانے اور بے شمار اسناد موجود ہیں۔ اگر کراچی کو ہمارے ملک سے الگ کر دیا جائے
تو پاکستان اِس شہر کے بغیر ایسا ہے جیسے سر کے بغیر انسانی جسم۔ صوبہ سندھ کا یہ
شہر اِن چیزوں کے علاوہ سمندری لحاظ سے بھی کافی اہمت کا حامل ہے۔ انگریزوں نے
کراچی کو بہت کچھ دیا جس میں قابلِ غور بات بندرگاہ قاسم ہے۔ صرف اِسی بندرگاہ کی
مدد سے ہم بہرہند سے کئی چیروں کی درآمد اور برآمد کا کاروبار کرتے ہیں۔ یہ شہر
آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بھی پاکستان کے تمام شہروں سےبڑاہے۔ تاہم پرانے زمانے
میں کہا جاتا تھا کہ کراچی غریبوں کا ماں باپ ہے۔ پورے ملک سے لوگ نوکریوں کی تلاش
میں صرف اِسی شہر کی طرف اپنا رخ کرتے تھے۔
لیکن 1970ء سے لے کر اب تک پاکستان ک اِس ترقیاتی شہر کو
کئی سازشوں کے زریعے آہستہ آہستہ نقصان پہنچایا جا رہا تھا۔ 2008ء کے الیکشن کے
بعد اِس شہر میں تیزی سے خون کی ہولی کھیلی جانے لگی۔ آئے دن کوئی نہ کوئی سنگین
سانحہ کراچی کی عوام کو برائے تحفہ دیکھنے کو ملتا تھا۔ بہتاخوری، غنڈا گردی، ہٹ
دھرمی اور ناجائز احکامات نے اب تک کراچی کے رہائشی لوگوں کو اُن کے گھروں میں بھی
پریشان رکھا گیا تھا۔ اِس حساب سے سب سے زیادہ جانیں کراچی میں ضائع ہوئیں اور
حکومتی سطح پر اِس حادثوں کو کئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
اب الیکشن 2013ء کے انتخابات میں بھی کراچی کی عوام کو
انصاف نہیں ملا۔ این اے 1 سے لے کر این اے 272 کے تمام حلقوں میں الیکشن کمیشن آف
پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے پولنگ کروائی گئی۔ کچھ حلقوں میں قانون کو
بالاتررکھتے ہوئے صحیح طریقے سے پولنگ کئی گئی۔ مگر جب پاکستان کے سب سے بڑے شہر
کراچی کا نمبر آیا تو اِس شہر کے تمام پولنگ اسٹیشنز پر دھاندلی کے انکشافات
دیکھنے کو ملے۔ خصوصاً حلقہ 250 میں تو یہاں تک دیکھا گیا کہ ووٹر کی مرضی کے خلاف
ووٹینگ کی گئی۔ کراچی کے مخصوص لوگوں کی فہرست میں بڑے بڑے غنڈوں اور وقت کے فرعون
لوگوں نے اپنی مرضی سے اِس بار بھی عوام سے اُن کے صحیح ووٹ حق چھینا۔ یہ لوگ
کراچی کی عوام کے لیے گذشتہ کئی سالوں سے ناسوربن کر اُن کی شررگ پر بیٹھے ہیں۔
صرف یہی نہیں بلکہ اِن لوگوں کے تعلقات سندھ بھر میں کئی شہروں تک محدود ہیں۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جب یہ محسوس ہوا کہ کراچی میں دھاندلی کے زریعے مختلف
پولنگ اسٹیشنز پر ناجائز ووٹینگ کی گئی۔ تو اُس کی طرف سے اب دوبارہ حلقہ 250 پر
پولنگ ہو گی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے سر براہ میاں محمد نواز
شریف جو اب تک کے نتائج کے مطابق اگے پانچ سال کے لیے ویزرِاعظم مقرر ہو چکے ہیں،
اب اُن سے یہ مودبان0ہ التماس کی جاسکتی ہے کہ وہ حلقہ 250 میں پولنگ کے حوالے سے
سنجیدگی سے کوئی نوٹس لیں۔
اِس حلقے سے جن پارٹیوں کے اُمیدواروں کے ساتھ ناانصافی کی
گئی تھی، اُنھیں اپنی پارٹی کے مطابق صلہ مل سکے۔ کراچی کی عوام ہمیشہ سے حق کا
ساتھ دینا چاہتی ہے مگر بدنامِ زمانہ اِن چور ڈاکوں کے ہوتے ہوتے نہ ماضی میں
کراچی کےلوگوں کے لیے کچھ اچھا ہوا تھا نہ اب ہوا ہے اور نہ ہی کبھی اُنھیں اُن کے
حق کا مناسب صلہ مل پائے گا۔
وہ کہتے ہیں نہ کہ سیاسی انتشار اور تشدد کا شکار ہونے والی
قوموں میں مایوسی پھیلنے لگتی ہے۔ لہٰذا مایوسی کے اِس وقت میں کراچی کی عوام میں
اُمیدِ سحر کی شمع جلائی جا سکتی ہے۔ بشرطِ حلقہ 250 میں دوبارہ شفاف پولنگ کروائی
جائے۔ اگر کراچی کی عوام کو دوبارہ اپنے منتخب اُمیدوار کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا
تو یقیناً کراچی کی عوام اندھیروں کو شکست دینے میں کچھ حد تک کامیاب ہو جائے گی۔
11 مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد پاکستان اب بھی انتشار اور تشدد کا شکار ہے۔ ملک
کی ساری عوام اب بھی حلقہ 250 کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہے لیکن مایوسی کے اندھیروں
میں مجھے اُمیدِ سحر کی کچھ ہلکی ہلکی روشنی نظر آرہی ہے، اِس لیے میں مایوس نہیں
ہوں۔ مجھے خطرات اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں ایک بہت نمایاں تبدیلی جنم لیتی ہوئی
دکھائی رے رہی ہے۔ یہ تبدیلی مجھے اِس شہر کی عوام کی سوچ میں نظر آرہی ہے کیونکہ
وہ اپنی جان و مال کو خطروں میں ڈال کر اپنے گھروں سے باہر حق کی آواز کے لیے نکلی
ہے۔ اِس تبدیلی کو ایک مثبت اور تعمیری رخ دینا ہماری سیاسی قیادت کا فرض ہے اور
اگر اہل فکر و دانش اپنی ذاتی مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر سچ کا ساتھ دینے لگیں تو
پھر تمام سیاسی قیادت بھی سچائی کا ساتھ دینے پر مجبور ہوجائے گی۔ اور یہی وہ لمحہ
ہے جب ہمیں کراچی کی عوام کی آواز میں اپنی آواز ملانی چاہیے۔
No comments:
Post a Comment