Saturday, August 24, 2013

Jumhori Hukomat Aur Islami Tarz-e-Amal

جمہوری حکومت اور اسلامی طرزعمل
کالمسٹ: محمد شہزاد
۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کا دن پاکستان بننے کی پہلی کھڑی تھی۔ شاعرمشرق علامہ محمد اقبال نے اپنے شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو ایک الگ وطن دینے پر مجبور کر دیا۔ برصغیر کے مسلمانوں نے اپنا خون پسینہ ایک کیا اور آخر کار ۱۴ اگست ۱۹۴۷ کو پاکستان معرض وجود میں آیا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان بننے کا مقصد برصغیر کے مسالمانوں کو ایک جداگانہ وطن دینے کا تھا۔ جس میں وہ اپنےرہن سہن کے طریقے اسلام کے طرزعمل کے مطابق گزارے۔
اقوام کی ترقی کا انحصار نوجوان نسل پر ہے۔ آپ پورے قد کے ساتھ کھڑے ہوں تو قوم آپ کے سائےتلے زندگی گزارے گی۔ عمران خان اکثر کہتا ہے کہ بزدل کھبی لیڈر نہیں بن سکتا۔ جس کی مثال حضرت عمرؓ ہے۔ ایک دفعہ ایک قافلہ مدینہ منورہ میں آیا اور شہرکے باہر اُترا اُس کی خبرگیری اور حفاظت کے لئے عمرؓ خود تشریف لائے۔ پہرہ دیتے پھرتے تھے کہ ایک طرف سےرونے کی آواز آئ۔ اُدھرمتوجہ ہوئےاوردیکھا کہ ایک شیر خوار بچہ ماں کی گود میں رورہا ہے۔ ماں کو تاکید کی کہ بچہ کو بہلائے۔ تھوڑی دیر بعد پھر اُدھر سے گزرے تو بچے کو روتا ہوا پایا۔ غیظ میں آکر کہا کہ تو بڑی بے رحم ماں ہے۔ عورت نے کہا کہ آپ کو اصل حقیقت معلوم نہیں خواہ مخوہ دق کرتے ہو۔  بات یہ ہے کہ عمرؓ نےحکم دیا ہے کہ بچہ جب تک دودھ نہ چھوڑے بیت المال سے اس کا وظیفہ مقرر نہ کیا جائے۔ میں اس غرض سے اس کا دودھ چھڑاتی ہوں اور اس وجہ سے روتا ہے۔ عمرؓ کو رقت ہوئی اور کہا کہ ہائے عمر تو نے کتنے بچوں کو رولایا ہوگا۔ اسی دن سے منادی کردی کہ بچے جس دن پیدا ہوتے ہوں اسی دن سے اُن کے وظیفے مقرر کر دیا جائیں۔
اس سلسلے میں اب ہمارے ملکی حالات حکومتی طرزعمل اور عوامی مسائل کے حل کی کوشش پر نظر ڈالئے قوم نے قائداعظم  کی قیادت میں متحد ہو کر پاکستان تو حاصل کر لیا تھا۔ لیکن ہم ان کی امنگوں کےمطابق اسے ایک مضبوط اور خوشحال ملک نہ بنا سکے۔ مگر کرسیوں کی جنگ اقتدار کی ہوس اور مفادات کے حصول کی جدوجہد میں ملک کو ہی دولخت کر دیا۔ ہماری جمہوری حکومت اپنے پانچ سال بھی پورے کر لئے۔ لیکن حالات یوں ہیں کہ عوام کے مسائل اور ملکی معاملات تو حل نہیں ہو سکے۔ لوڈشیڈنگ، اور امن وامان کی صورت حال اتنی ابتر ہے کہ عوام کی زندگی اجیرن بن گئی ہے۔ جس کے نتیجے میں معیشت متاثر ہوئی، بیروزگاری میں اضافہ ہوا اور جرائم کی شرح بھی بڑھی ہے۔
حضور اکرمﷺ کے زمانے میں صحابہ کرامؓ میں قائدانہ صلاحیتں بدرجہ اتم موجود تھیں لہزا آپؐ کے دارفانی سے چلے جانے کے بعد صحابہ کرامؓ میں مجلس شورٰی کے ذریعے حکمران کا انتخاب  کیا جاتا تھا۔ جس میں قائدانہ صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ تقوٰی، حسن احلاق، کردار وسیرت پر نظررکھ کر انتخاب ہوا کرتا تھا اگر کسی حکمران کے خلاف کوئی شکایت ہوتی تو خلیفہ وقت حودجا کر اُس محاسبہ کرتا۔

دور خاضر جمہوریت کا ہے جسے مسلمان ممالک نے اپنایا ہے اور وُوٹوں کے ذریعے انتحاب عمل میں لایا جاتا ہے۔حا لانکہ مسلمان ممالک کے سامنے ہمارے اسلاف کے روایات طرزمعاشرت اور انداز غورفکر موجود ہے۔ جنہیں نظرانداز کئے ہوئے ہیں اور مغرب کے پیروکاربن گئے ہیں۔ وُوٹ ایک امانت ہے جسے ایسے افراد کو دینا چاہیے جو ایمان دار، با مروت، مزہبی جذبےسے سرشار، قومی خادم اور محب وطن ہوں اور وہ ملک و قوم کی صحیح خدمت کر سکے اور اسے ترقی کی راہ پر گامزن کر سکے۔ ہمارا ملک ۱۹۴۷ء میں آزاد تو ہوا ہے لیکن ہم ترقی کے منازل طے کرنے میں نا کام رہے ہیں۔ اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم پر جمہوریت کی بجائے جاگیردارانہ نظام رائج کیا گیا ہے۔ متوسط اور ادنٰے طبقات کی نمائندگی کا فقدان ہے۔ جاگیردار لوگ پیسوں کے ذریعے متوسط اور ادنٰی طبقات سے وُوٹ حاصل کرتے ہیں۔ انہوں نے جمہوریت کے لبادے میں قومی دولت کو لوٹ لیا ہے۔ ملک کو سدھارنے کے لئے شدید انقلاب کی ضرورت  ہے جس کا ہتھیار عوام کے ہاتھوں میں وُوٹ کی شکل میں ہے جس کا صحیح استعمال کیا جائے۔

No comments:

Post a Comment