Thursday, August 29, 2013

Column of Syed Aamir Shah 4

معاشرے میں عورتوں کا مقام
کالمسٹ: سید عامر شاہ

اب تک بیش بہا کالم نگاروں نے لفظ  ”عذابِ زن“ کو اپنی قلم کی روشنی سے اُجاگر کیا ہے۔ مگر دورِ جہالت سے اب تک عورت صرف ایک ایسی چیز ہے جسے یہ زمانہ اپنے مختلف حالاتوں میں استعمال کرتا آیا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عورت ہمیشہ خطیر ناانصافیوں کا شکار رہی ہے۔ ہر لڑکی جب پیدا ہوتی ہے تو اُسے اپنی پیدائش سے لے کر مرتے دم تک بہت سے مسائل درپیش آتے ہیں۔ جب وہ والدین کے گھر ہوتی ہے تو اُسے یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ اُس کا اصل گھر اُس کے شوہر کا ہوتا ہے۔ اُسے یہ درس بھی دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے والدین کے پاس امانت کے طور پر ہوتی ہے اور اُسے ایک نہ ایک دن اپنے والدین کا گھر چھوڑ کر جانا ہوتا ہے۔ مسلسل یہ باتین سن کر پھر ہر لڑکی اپنی آنکھوں میں خواب سجائے ، اپنے ہونے والے شوہر کا انتظار کرنے لگتی ہے۔ اِس کے بر عکس اُس کی عمر کھیل کود کی ہوتی ہے، تب معاشرے کا ہر فرد اپنے ساتھ رشتوں کی لمبی لمبی لائنیں لگا کر اُس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ روایتی طور پر آنے والا ہر رشتہ اپنے ساتھ ہزاروں اُولجھنیں بھی لاتا ہے۔ یعنی قدرتی نقص والی لڑکی کے علاوہ ٹھیک لڑکی کو بھی ہر آنے والا رشتہ ٹھکرانے لگتا ہے۔ بس یہیں سے تمام لڑکیاں ایک ساتھ احساسِ کمتری کے سفر پر چلنے لگتی ہیں۔ جو بھی رشتہ آتا ہے تو بظاہر اُس رشتے میں کچھ خاص شفافیت نہیں ہوتی مگر آنے والا ہر رشتہ اپنے ساتھ ڈھیر ساری شرائط لاتا ہے۔ شرائط بھی کچھ یوں کہ اُنھیں پورا کرتے کرتے ہر رئیس انسان ہار مان سکتا ہے۔ اِن اَن گنت شرائط کے ساتھ جب ایک لڑکی اپنے تمام رشتوں کو بھلا کر اپنے شوہر کے گھر جاتی ہے تو اُسے ساس یہ کہتی ہے ”بہو زرا دھیان سے رہنا کیونکہ یہ تمہارے بات کا گھر نہیں بلکہ میرے بیٹے کا گھر ہے۔“

اِس قسم کے جملے جب ایک عورت سنتی ہے تو اُس کے ذہن کے دریچوں میں جو خواب سجے ہوتے ہیں، ریزہ ریزہ ہو جاتے ہیں۔ تاہم وہ ایک نئی آس لگائے اپنی اُولاد کے گھر کا انتظار کرتی ہے۔ جب اُولاد لاکھ قربانیوں کے ساتھ بڑی ہو جاتی ہے تو اُولاد کے بجائے ماں کو اُن کے اشاروں پر چلنا ہوتا ہے۔ یعنی عورت ہمیشہ ایک معصوم کلی کی طرح ہر ایک  مکان کو گھر کی شکل دے کر یہ سمجھتی ہے کہ شاید یہ سب گھر اُس کے رہنے کا آشیانہ ہوتے ہیں۔ مگر پتھروں کے زمانوں میں جو عورت ہر مکان کو گھر کی شکل دیتی تھی، آج بھی وہ عورت ہر گھر کو بدستور ترستی رہتی ہے۔
ہم اخباروں کی سرخیوں میں ہمیشہ پڑھتے ہیں“آج کی تازہ خبر کسی گھر میں مٹی کے تیل کا چولہا پھٹا، جل کے مر گئی ایک بہر۔” یعنی پرائی امانت اور کسی کی لائی ہوئی بہن بیٹی۔ تو میرا سوال یہ ہے کہ گھر میں اور عورتیں یعنی ساس اور نندیں بھی تو ہوتی ہیں تو چولہا صرف بے گانی امانت کےلیے ہی کیوں پھٹتا ہے؟۔ اپنی پیدا کی ہوئی بیٹی یا بذاتِ خود ساس اُس چولہے میں جل کر کیوں نہیں مر جاتی؟۔ اِس کے برخلاف بیشتر شادی شدہ مرد جب یہ محسوس کرلیں کہ اُن کی ازواج کے حسن میں کمی آجائے تو وہ کسی دوسری عورت کی نئی مسکراہٹ کے طلبگار ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں شادی شدہ عورت لاشعوری طور پر ہمیشہ اپنے خاوند کے ہر فعل سے باخبر رہتی ہے۔ تاہم عورت پھر بھی اِن تمام تقاضوں کے باوجود اپنی ذمے داریوں سے انحراف نہیں کرتی۔ یعنی وہ بے لوث خدمت گار ہوتی ہے۔ وہ اپنے والدین کی خدمت کرتی ہے بغیر کسی لالچ کے ، اپنے شوہر سمیت اپنے سسرال والوں کے ناز نخرے سہتی ہے اور اپنے بچوں کے لیے اپنی زندگی برباد کر دیتی ہے وہ بھی بغیر کسی لالچ کے۔ تو میرا سوال صرف اُن مردوں سے ہے کہ جو عورتیں اُن کے ڈھیر سارے بچوں کو پالتی ہیں، اپنے سسرال کی بلاوجہ ٹکے ٹکے کی باتیں سنتی ہیں۔ اگر وہی عورتیں کہیں کہ اُنھیں بھی اپنے شوہروں کی طرح کسی غیر مرد میں دلچسپی لینا ہے تو بتائیں کسی بھی عورت کا یہ جملہ ہر غیرت مند شوہر کے لیے کیسا ہو گا؟۔
میں مانتا ہوں کہ کچھ لڑکیاں اپنے آپ کواشتہار بنا کر جب گھر سے نکلتی ہیں تو لڑکے اُنھیں چھیڑتے ہیں۔ مگر کچھ لڑکے تو برقعہ پہنی لڑکیوں کو بھی نہیں چھوڑتے۔ بلکہ برقعہ پہنی لڑکیوں کا تو دور دور تک پیچھا کرتے ہیں چاہے نتیجتاً اگلے چوک پر اُس برقعے میں اُن کی اپنی سگی ماں ہی کیوں نہ نکل آئے۔ اور ویسے بھی ایسے لڑکوں کے بارے میں کسی سیانے نے کیا خوب کہا ہےکہ ایسے لڑکوں کا ذہن کچھ یوں ہوتا ہے کہ اگر آپ کسی جھاڑی کے اُوپر کپڑا ڈال دیں تو یہ لڑکے وہاں سارا سارا دن کھڑے رہیں گے کہ شاید اِس میں کوئی حرکت ہو جائے۔
جب ایک مرد اخلاق سے گرے ہوئے ایسے کام کرتا ہے تو وہ اپنے ضمیر کو یہ کہہ کر خاموش کروادیتا ہے کہ وہ تو مرد ہے اور مرد کے لیے یہ دنیا تخلیق کی گئی ہے۔ اِس دلاسے پر وہ ہر ایک خیر اخلاقی کام کر جاتا ہے۔ مگر جب ایک عورت کوئی ایسا کام کر جاتا ہے۔ مگر جب ایک عورت کوئی ایسا کام کر دے تو سب مرد حضرات اُسے ازیت کا نشانہ بنا دیتے ہیں۔ جب عورت اپنے حق میں صفائی دیتی ہے تو اُسے یہ چند جملے کہہ کر آخرکار مجرم قرار دیا جاتا ہے۔ “عورت تو پابند ہے، وہ تو مقید ہے اور اُسے تو پیدا کیا گیا ہے گھر کی چاردیواری کے تقدس کے لیے۔ اُسے تو گھر میں ہی رہنا ہو گا چاہے کچھ بھی ہوجائے، عورت کا کام ہے انسانوں کو جنم دے کر معاشرے کو اچھی نسل دینا، اور مرد کو جب باری تعالیٰ نے پیدا فرمایا تو فرمایا کہ اے مرد ذات! یہ دنیا اور خصوصاً عورتیں تو تیرے لیے پیدا فرمائی گئی ہیں، اِس لیے تجھے چار چار شادیوں کا حق حاصل ہے۔
آخر کیوں ایسی بے انصافیاں صرف عورت کے ساتھ ہی پیش آتی ہیں۔ اگر چار شادیوں کے بارے میں بات کی جائے تو حقیقت یہ ہے کہ عورت میں صبرو قناعت ہے۔ وہ کسی ایک مرد کے نام پر اپنی پوری زندگی گزار سکتی ہے۔ نہ صرف اُس کے جیتے جی بلکہ مرنے کے بعد بھی اُس کے بچوں اور اُس کی عزت کو سنبھال سکتی ہے اور اُس کے گھر کی چاردیواری میں ہمیشہ کے لیے رہ سکتی ہے۔ مگر کچھ مردوں کی فطرت کو اللہ تعالیٰ جانتے تھے، اِس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں نے کچھ ایسے مرد تو تخلیق کر دئیے ہیں۔ لہذا اِ ن مردوں کا ذہنی کیڑا اِنھیں چین سے رہنے نہیں دے گا اور یہ اپنی عورتوں کے باوجود باہر دوسری عورتوں کے پاس جائیں گے۔ اِس لیے اسلام نے اِن مردوں کو صرف گناہوں سے بچانے کے لیے چار چار شادیوں کی اجازت دی۔ مگر ایسے مرد ذات اِسی فلسفے کو کسی اور شکل میں بیان کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر چار چار شادیوں کی دھمکی دے کر یہ مرد اپنی بیویوں کو قابو میں رکھتے ہیں۔ لفظ طلاق کو اپنا ہتھیار بنا کر ایسے مرد اپنی بیویوں کو مظلوم سمجھتے ہیں اور اگر کسی عورت سے تھوڑی سی غلطی ہو جائے تو اُس کے کردار پر طلاق کا سیاہ دھبہ لگا دیتے ہیں۔ اگرچہ دیکھا جائے تو کوئی بھی عورت اپنی خوشی سے یہ داغ نہیں لگاتی مگر زمانے کی بددیانتیاں اور ناانصافیاں اُسے مجبور کرتی ہیں کہ وہ طلاق جیسی زلت کا طوق پہنے۔ اِسی طرح چارشادیوں کا بار بار ذکر کر کے کچھ شوہر اپنی بیویوں کو ہمیشہ اپنے آپ سے کمتر سمجھتے ہیں۔ تو ایسے مرد شاید یہ بھول جاتے ہیں کہ چار چار شادیوں کی اجازت صرف اُن مردوں کو حاصل ہوتی ہے جو چار شادیاں بہتر طریقے سے  سنبھال سکتے ہیں۔ مگر ایسے جہلاءمرد اپنی پہلی بیوی اور بچوں کے منہ سے نوالہ چھین کر دوسری عورتوں کے منہ میں ڈال دیتے ہیں۔ یعنی جب وہ کسی دوسری عورتوں سے ملتے ہیں تو رسماً یہی کہتے ہیں۔
”میری شادی میری  پسند سے نہیں ہوئی، ابھی میں بہت چھوٹا تھا جب میرا نکاح کیا گیا، خدا کی قوم اُس عورت سےآج تک میری انڈرسٹینڈنگ نہیں ہوسکی۔“
پھراِن جملوں سے جب دوسری عورتیں شادی کے لیے راضی ہو جاتی ہیں تو مرد اپنی دوسری بیوی سے کہتا ہے“بیگم کمرومائز کرو” اور پہلی والی کو کہتا ہے“بیگم مجھے معاف کر دو مجھ سے تو غلطی ہو گئی” تو بظاہر ہمارے معاشرے کا تقریبا ہر مرد دوسری شادی اسلامی نقطہ نظر سے نہیں  کرتا۔
کہتے ہیں صرف نیک مردوں کو جنت میں 70 حوریں ملتی ہیں۔ مگر میں کہتا ہوں کہ عورت کو اِسی دنیا میں وہ مقام مل جاتا ہے جس کی برابری کوئی مرد نہیں کرسکتا۔ یعنی عورت جب ماں بنتی ہے تو اُس کے قدموں تلے جنت آجاتی ہے۔ اور تو اور نیک مردوں کو تو صرف چند حوریں ملتی ہیں مگر نیک عورتوں سمیت بری عورتوں کو بھی ماں کا درجہ مل جاتا ہے۔ سو اِس حساب سے دیکھا جائے تو مرد زیادہ خوش نصیب عورت ہوتی ہے۔ مرد کو جنت میں حوریں ملتی ہیں جبکہ عورت کے قدموں تلے پوری کی پوری جنت ہوتی ہے۔ خیرٗ بہت سے مرد اِس بات سے اتفاق نہیں کرتے، وہ کہتے ہیں کہ عورت بذاتِ خود ماں نہیں بنتی، تاہم اُس کے ماں بننے میں مرد کا ساتھ ہونا بہت ضروری ہوتا ہے۔ مگر میں اُن سب مردوں کو ایک چھوٹی سی مثال دے کر ہمیشہ کے لیے خاموش کروادینا چاہتا ہوں کیونکہ بہت سے مرد دینا میں ایسے ہیں جو بذاتِ خود مرد ہوتے ہوئےبھی کسی عورت کو ماں نہیں بناسکتے۔ لیکن جس عورت کے بخت میں اگر اللہ تعالیٰ نے جنت کرنی ہو، تو اُسےحضرت بی بی مریم کا روپ دے کر اُس کے بدن سے اللہ تعالیٰ ایک بار پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام جیسے نیک پیغمبر انسان کو دوبارہ پیدا کرسکتا ہے۔ تو تمام مرد حضرات اِس بات کو ذہن نشین کرلیں کہ عورت اگر ماں ہے تو اُسے حضرت بی بی ہاجرہ سمجھا جائے، اگر وہ ایک بہن ہے تو اُسے حضرت بی بی زینب ؓ، اگر وہ ایک بیٹی ہے تو اُسے حضرت بی بی فاطمہؓ اور اگر وہ ایک بیوی ہے تو اُسے حضرت ایوب علیہ السلام کی چوتھی بیوی یعنی حضرت بی بی رحیمہ سمجھا جائے۔ جاتے جاتے میں شادی شدہ افراد کو یہ پیغام دینا چاہتا ہوں کہ جب میاں بیوی آپس میں سمجھوتے سے نہیں رہیں گے، انڈرسٹینڈنگ سے نہیں رہیں گے، اپنے گھر کی باتیں دوسرے لوگوں کو جاکر بتائیں گے، اپنے گھر کی چاردیواری میں چور دروازے دیں گے تو اُس گھر کو میں تو کیا بلکہ اِس دنیا کی بڑی سے بڑی طاقت بھی ٹوٹنے سے روک نہیں سکتی۔

Column of Syed Aamir Shah 3

تعلیم اور ہمارا نظامِ تعلیم
کالمسٹ: سید عامر شاہ

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد بہت سے لوگوں نے یہ جان لیا کہ برصغیر میں مسلمانوں کو وہ درجات حاصل نہ تھے جو اُنھیں صدیوں پہلے مل چکے تھے۔ سر سید احمد خان ؒ اولین مفکرہیں جسے شروع شروع میں اہل برصغیر کے تمام مسلمانوں نے اپنا دشمن مان لیا تھا، تاہم اُن کی کاوشوں سے ہی آج ہمیں اپنی ایک الگ شناخت ملی ہے۔ وہی ہمارے لیے اُمید ِسحر کی پہلی کرنیں قلم کے زریعے لائے تھے۔ جب اُنھوں نے انگریزی زبان کو مسلمانوں کے لیے ضروری سمجھا تو وہیں سے ہمیں آزادی کی پہلی کرنظر آئی۔ پھر شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے 1930ء میں خطہ الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں اُن کے ادھورے خوابوں کو ایک بار پھر اُجاگر کیا۔ اُن کا کہنا یہ تھا۔
”مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآ خر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ اِس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اِس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کریں۔ میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں۔“
یہ مطالبہ اسلام کے کردار کا بحیثیت ایک اخلاقی انصب العین تو ضرور تھا، تاہم پھر 23مارچ 1940ء منٹو پارک میں کچھ اور مطالبات نے جنم لیا اور یوں ہمیں صرف 7 سالوں کی مختصر جدوجہد سے ایک الگ اور خود مختیار وطن نصیب ہوا۔ میں نے گذشتہ لائنوں میں جن جاذبِ نظر شخصیات کو یاد کیا ہے، وہ تمام اشخاص صرف تعلیم اور قلم ہی کی بنیاد پر ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بطورِمسیحا کام آئے تھے۔ اگر دیگر مسلمانوں کی جگہ وہ بھی علم کی روشنی سے محروم ہوتے تو یقیناً ہمیں خوبصورت محل وقوع کے لحاظ سے پاکستان جیسا ملک کبھی میسر نہ ہوتا۔علم کی ترتیب و تدوین کی بدولت سر سید احمد خانؒ سمیت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظمؒ جیسے لوگوں نے ہمیں وہ کام کر دکھایا جسے ہم اپنی زبان میں اگر معجزا کہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ دنیائے عالم میں پاکستان واحد ملک ہے جسے صرف مذہب ، علم اورقلم کے زور پر ہی ہندوستان کے ہزاروں لوگوں سے الگ کیا گیا تھا۔ مگر آج کیا ہم اُس مذہب، علم اور قلم کو صحیح طریقے سے استعمال کر رہے ہیں؟۔
اِس کا جواب تو اب شاید میرے پاس بھی نہیں کیونکہ مجھے قلم پکڑنی تو آتی ہے مگر اُسے چلانا میرے بس کی بات نہیں۔ ہماری تعلیم میں اب شاید وہ جذبہ نہیں رہا جس سے پہلے کبھی ہم آشنا تھے۔ پاکستان کے اساس میں نظریہ پاکستان کو بہت اہم مقام حاصل ہے لیکن کیا آج ہم نظریہ پاکستان کا مطلب جانتے ہیں ؟۔ ہمارے قومی ہیروز بظاہر تو یہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں اسلام کے ساتھ لوگ تعلیم سے بھی واقف ہو جاتے اور وہ دنیا کے معروف لوگوں کا مقابلہ کرتے۔ لہذا اُن کے نظریات تو آج بھی کتابوں اور خطوں میں زندہ ہیں اور بظاہر پاکستان کی قوم دنیا کے معروف لوگوں سے مقابلہ کرتی آرہی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ قلم کی جگہ کیبل اور پڑھائی کی جگہ لا پرواہی آچکی ہے۔ انصاف کی جگہ بے انصافی اور حلال کی جگہ حرام اپنی اپنی جگہ بدل چکے ہیں۔ جس ملک کو ہم اپنا روایتی حریف سمجھتے ہیں اُسی کی تمام فلمیں، ڈرامے اور چٹ پٹی باتیں ہمارے ہی ملک میں پائی جاتی ہیں۔ بولی وڈ سے مشابہت رکھتے ہوئے ہم یورپ سمیت ساوتھ اورنارتھ آمریکہ سے بھی پیچھے نہیں۔فیس بک، ٹیوٹٹر اورلاتعداد سوشل ویب سائٹز کے زریعے ہماری ہر معلومات اب اُن کے پاس موجود ہے۔ کہتے ہیں 600ء سے لے کر 1600ء تک تعلیمی دور مسلمانوں کے پاس تھا مگر پھر عروج سے زوال کے بعد آج ہم کچھ اتنے مفلس اور ناتواں ہوچکے ہیں کہ ہم اپنے ہی ملک میں اپنی تعلیمی معیار کے ساتھ بذاتِ خود کھیل رہے ہیں۔ ہم نے صرف تعلیم اور قلم کی قدر چھوڑی اور اُنھوں نے اسی تعلیم اورقلم کی قدر کی، جنانچہ فیصلہ آج آپ لوگوں کے سامنے ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ بولی وڈ اور ہولی وڈ کی ویب سائٹز دیکھی جاتی ہیں۔ کیوں نہ دیکھی جائیں، اُنھیں دیکھ کر تو ہمیں لگتا ہے کہ وہ لوگ ہم سے ہر معاملے میں کئی قدم آگے ہیں۔ تو کیا کبھی ہم نے اپنے کم ترقیافتہ ملکوں کی طرف نظر دوڑائی ہے؟جنہیں اگر صبح کا کھانا نصیب ہوتا ہے تو رات کا کھانا پیدا کرنا اُن کے لیے بہت مشکل کا م ہوتا ہے۔ آمریکہ جو آج کل کے زمانے کا سپر پاوور کہلاتا ہے ، اُس کے اپنے ہی بیشتر شہروں میں کئی لوگ بھوک سے دم توڑ جاتے ہیں۔ اور جہاں تک رام ، بھگوان، ہنومان اور عشور والے ملک بھارت کی بات ہے تو رقبے کے لحاظ سے وہ یقیناً ہمارے ملک سے کافی بڑا ہے مگر کیا کبھی ہم نے اُس کی بڑھتی ہوئی خطیر آبادی پر غور کیا ہے ؟۔ اپنی بڑھتی آبادی کے لحاظ سے پوری دنیا میں اُس کا نام دوسرے نمبر پر ہے جبکہ ہم اپنے ملک کو غریب اور مفلس سمجھتے ہیں۔ بھارت کے صرف دوشہر یعنی نئی دہلی اور ممبئی کی آبادی ہمارے ملک کی تمام آبادی سے کافی زیادہ ہے۔ لہذا ہم کیوں ایک طرفہ سوچ کے حامل ہیں ؟۔ آخر ہمیں حقائق نظر نہیں آتے ؟۔ شاید اِس لیے کیونکہ  ہم سے لاشعوری طور پر قلم کی اہمیت کھو چکی ہے۔
تعلیم کا پاتال کیا ہے ؟ چلیں اِس پر کچھ سوچتے ہیں۔ میرے ملک میں معیارِ تعلیم کچھ اِس قدر مسمار ہو چکی ہے کہ کسی صاحبِ مضمون سے پوچھا جائے کہ دیوانِ غالب کس نے لکھا ہے تو ہمیں جواب ”پتہ نہیں“ میں ملے گا۔ ایم ایس سی فزکس کی ڈگری لینے والے طلبات کو بجلی کا فیوز تک لگانا نہیں آتا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہماری قوم کے طالب علم ہاتھوں میں اپنے تعلمی کاغذات کے پرزے لے کر نوکریوں کی لائنوں میں لگے رہتے ہیں۔ عرصہ دارز میں لوگوں کے پاس ڈگریاں اور اسناد موجود تو نہیں تھے مگر رسمی علم اور تعلیم ضرور تھی۔ مگر آج ہم اپنے ملک کی عوام کا تعلیمی حال دیکھیں تو لوگ جاہل مطلق، کتابِ دشمن اور ایک عدد ڈگری نقل یا نوٹس کی مدد سے پاس کرلیتے ہیں۔ ایسے ہی کئی انسان سے اگر پوچھا جائے کہ اُس نے ایم اے یا ایم ایس سی میں کسی اوریجنل کتاب کامطالعہ کیا ہے تو یقیناً ہمیں یہ جواب ملے گا کہ سوائے کچھ نوٹس اور خلاصوں کے اُس شخص نے تقریباً ایک کتاب کا بھی مکمل طور پر مطالعہ نہیں کیا ہوگا۔
تعلیمی نظام کو بر باد کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ کمزور اور غریب ملکوں کے تجارتی رویوں کا ہے جو خلوصِ علم کی نہیں بلکہ ڈگریوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ اِس لیے ہمارے ملک کی تمام لڑکیاں اور لڑکے اچھی جی پی اے یعنی گریڈ، پوئنٹ اوراوریج کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جب وہ اچھی جی پی اے لے کر پروفیشنل لائف میں آتے ہیں تو اُنھیں پاکستان میں اچھی نوکریاں بھی مل جاتی ہیں کیونکہ قحط الرجال ہے۔ پھر وہ نئی نسل کو بھی وہی طریقہ بتاتے ہیں جو اُنھوں نے اختیار کای ہوتا ہے۔ اگرچہ ہمارے بڑے ہی اگر ایسے کاموں کو درست سمجھ لیں تو دورِ وقت کی اِس نسل کا کیا ہوگا ؟۔ ہماری اُمیدِ سحر کا کیا ہوگا ؟۔ مغربی ممالک کے حوالے سے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کے اِس اہمیت خیز شعر سے میں اپنی اِس جاری و ساری قلم کا سلسلہ ختم کرتا ہوں۔
”سورج ہمیں ہر شام یہ درس دیتا ہے اقبالؔ
کہ مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے“

Column of Syed Aamir Shah 2

ہمارا کراچی اور  الیکشن 2013ء
کالمسٹ: سید عامر شاہ

کچھ دن پہلے پاکستان میں الیکشن برپا تھے۔ مختلف ڈیرے آباد اور لوگوں کے ہاتھوں میں تازہ حقے تھے۔ بہت سے انجان لوگوں کی بلاوجہ خدمت کی جا رہی تھی۔ ہر رنگ ونسل کے تمام انسانوں کو ترقی کی راہ دیکھائی دے رہی تھی۔ ایسا لگتا تھا ہ ہمیں ایک نیا پاکستان ملنے والا تھا مگر 11 مئی کے دن ہمیں اُمیدِ سحر کے بجائے وہی پرانہ پاکستان ملا جسے ہر حال میں بدلنا تھا۔ 1993ء کے انتخابات سے لے کر اب تک لوگوں کے نظریات ایک جیسے تے۔ یعنی ہر صوبہ اپنی شناخت بنانے کے لیے صرف اُس پارٹی کو ہار بار منتخب کرتا ہےجو صرف اُسی کے لیے ہی مفید ہوتی ہے۔ چاہے وہ پارٹی دیگر صوبوں کی ردی بھر ترقی دے نہ دے کسی کو اِس سے کیا ؟۔ اگر ہم پاکستان کے شہری کہلاتے تو سابقہ انتخابات کی طرح اِس الیکشن میں بھی ہم ایک ایسی پارٹی کو اقتدار میں لاتے جو صرف ایک صوبے تک محدود نہ وہوتی بلکہ وہ پورے ملک کے لیے کار آمد ہوتی۔ مگر افسوس کہ اِس بار بھی نتائج وہی ہیں جو 2008ء کے الیکشن میں ہمیں موصول ہوئے تھے۔ اگر صوبہ خبیر پختونخوا کی بات کی جائے تو اِس صوبے کی حقیقی منعوں میں خراجِ تحسین پیش کرنا چاہیے۔ 1993ء کے انتخابات میں اِس صوبے نے اپاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، 1997ء میں پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایل ایم این)، 2002ء میں متحدہ مجلس عمل (ایم ایم اے) اور 2008ء میں عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) کو کئی مواقع دیئے۔ نتیجتاً اِس صوبے میں چند تبدلیوں کے علاوہ کچھ اور سامنے نہ آسکا۔ سابقہ الیکشن کے بعد اِس صوبے کو ریڈ زون کا نام دیا گیا۔ یہاں سے سب زیادہ دہشت گردی پائی جاتی تھی۔ بم دھماکوں کے علاوہ کئی ایسے حوادث بھی دیکھنے کو ملتے جنہیں بیان کرنا کسی کے بس کی بات نہیں تھی۔ ڈران حملوں کی فہرست میں کئی لواحقین کو اُن کے پیاروں کی لاشیں بھی دیکھنے کو نصیب نہ ہوئیں۔
اب چلتے ہیں سندھ کی جانب۔ اِس صوبے میں بھی یہی صورتِ حال رہی۔ مہاجروں کی حکومت میں سندگی عوام ہر ظلم وستم کا نشانہ بنتی رہی۔ جب اِس صوبے میں کوئی حادثہ پیش آتا تو تمام سیاستدان اُس حادثے کی خوب لفظی مزمت کرتے۔ حالانکہ اُنھیں چاہیے تھا کہ وہ ہر ایک حادثے کا بھر پور نوٹس لیتے۔ مگر وہ کہتے ہیں نہ کہ جس کی لاٹھی اُس کی بھینس۔ سابقہ حکومت نے خبیر پختونخوا کی طرح سندھ کی عوام کے لیے بھی کچھ مثبت پیش رفت نہ کی۔ ملک بھر کے شہروں سمیت کراچی میں بھی 2008ء کے الیکشن کے بعد قیمتی جانیں ضائع ہوئیں۔
کہا جاتا ہے کسی ملک کی معیشت اُس کے ترقیاتی شہروں سے وابستہ ہوتی ہے۔ لہٰذا دیکھا جائے تو معیشت کے لحاظ سے کراچی شہر پاکستان کی معیشت میں سب سے اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اِس شہر میں سبگ سے زیادہ انڈسٹریاں، مختلف ملز، کارخانے اور بے شمار اسناد موجود ہیں۔ اگر کراچی کو ہمارے ملک سے الگ کر دیا جائے تو پاکستان اِس شہر کے بغیر ایسا ہے جیسے سر کے بغیر انسانی جسم۔ صوبہ سندھ کا یہ شہر اِن چیزوں کے علاوہ سمندری لحاظ سے بھی کافی اہمت کا حامل ہے۔ انگریزوں نے کراچی کو بہت کچھ دیا جس میں قابلِ غور بات بندرگاہ قاسم ہے۔ صرف اِسی بندرگاہ کی مدد سے ہم بہرہند سے کئی چیروں کی درآمد اور برآمد کا کاروبار کرتے ہیں۔ یہ شہر آبادی اور رقبے کے لحاظ سے بھی پاکستان کے تمام شہروں سےبڑاہے۔ تاہم پرانے زمانے میں کہا جاتا تھا کہ کراچی غریبوں کا ماں باپ ہے۔ پورے ملک سے لوگ نوکریوں کی تلاش میں صرف اِسی شہر کی طرف اپنا رخ کرتے تھے۔
لیکن 1970ء سے لے کر اب تک پاکستان ک اِس ترقیاتی شہر کو کئی سازشوں کے زریعے آہستہ آہستہ نقصان پہنچایا جا رہا تھا۔ 2008ء کے الیکشن کے بعد اِس شہر میں تیزی سے خون کی ہولی کھیلی جانے لگی۔ آئے دن کوئی نہ کوئی سنگین سانحہ کراچی کی عوام کو برائے تحفہ دیکھنے کو ملتا تھا۔ بہتاخوری، غنڈا گردی، ہٹ دھرمی اور ناجائز احکامات نے اب تک کراچی کے رہائشی لوگوں کو اُن کے گھروں میں بھی پریشان رکھا گیا تھا۔ اِس حساب سے سب سے زیادہ جانیں کراچی میں ضائع ہوئیں اور حکومتی سطح پر اِس حادثوں کو کئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
اب الیکشن 2013ء کے انتخابات میں بھی کراچی کی عوام کو انصاف نہیں ملا۔ این اے 1 سے لے کر این اے 272 کے تمام حلقوں میں الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) کی جانب سے پولنگ کروائی گئی۔ کچھ حلقوں میں قانون کو بالاتررکھتے ہوئے صحیح طریقے سے پولنگ کئی گئی۔ مگر جب پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا نمبر آیا تو اِس شہر کے تمام پولنگ اسٹیشنز پر دھاندلی کے انکشافات دیکھنے کو ملے۔ خصوصاً حلقہ 250 میں تو یہاں تک دیکھا گیا کہ ووٹر کی مرضی کے خلاف ووٹینگ کی گئی۔ کراچی کے مخصوص لوگوں کی فہرست میں بڑے بڑے غنڈوں اور وقت کے فرعون لوگوں نے اپنی مرضی سے اِس بار بھی عوام سے اُن کے صحیح ووٹ حق چھینا۔ یہ لوگ کراچی کی عوام کے لیے گذشتہ کئی سالوں سے ناسوربن کر اُن کی شررگ پر بیٹھے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ اِن لوگوں کے تعلقات سندھ بھر میں کئی شہروں تک محدود ہیں۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان کو جب یہ محسوس ہوا کہ کراچی میں دھاندلی کے زریعے مختلف پولنگ اسٹیشنز پر ناجائز ووٹینگ کی گئی۔ تو اُس کی طرف سے اب دوبارہ حلقہ 250 پر پولنگ ہو گی۔ پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کے سر براہ میاں محمد نواز شریف جو اب تک کے نتائج کے مطابق اگے پانچ سال کے لیے ویزرِاعظم مقرر ہو چکے ہیں، اب اُن سے یہ مودبان0ہ التماس کی جاسکتی ہے کہ وہ حلقہ 250 میں پولنگ کے حوالے سے سنجیدگی سے کوئی نوٹس لیں۔
اِس حلقے سے جن پارٹیوں کے اُمیدواروں کے ساتھ ناانصافی کی گئی تھی، اُنھیں اپنی پارٹی کے مطابق صلہ مل سکے۔ کراچی کی عوام ہمیشہ سے حق کا ساتھ دینا چاہتی ہے مگر بدنامِ زمانہ اِن چور ڈاکوں کے ہوتے ہوتے نہ ماضی میں کراچی کےلوگوں کے لیے کچھ اچھا ہوا تھا نہ اب ہوا ہے اور نہ ہی کبھی اُنھیں اُن کے حق کا مناسب صلہ مل پائے گا۔

وہ کہتے ہیں نہ کہ سیاسی انتشار اور تشدد کا شکار ہونے والی قوموں میں مایوسی پھیلنے لگتی ہے۔ لہٰذا مایوسی کے اِس وقت میں کراچی کی عوام میں اُمیدِ سحر کی شمع جلائی جا سکتی ہے۔ بشرطِ حلقہ 250 میں دوبارہ شفاف پولنگ کروائی جائے۔ اگر کراچی کی عوام کو دوبارہ اپنے منتخب اُمیدوار کو ووٹ دینے کا حق دیا گیا تو یقیناً کراچی کی عوام اندھیروں کو شکست دینے میں کچھ حد تک کامیاب ہو جائے گی۔ 11 مئی 2013ء کے انتخابات کے بعد پاکستان اب بھی انتشار اور تشدد کا شکار ہے۔ ملک کی ساری عوام اب بھی حلقہ 250 کے حوالے سے مایوسی کا شکار ہے لیکن مایوسی کے اندھیروں میں مجھے اُمیدِ سحر کی کچھ ہلکی ہلکی روشنی نظر آرہی ہے، اِس لیے میں مایوس نہیں ہوں۔ مجھے خطرات اور ٹوٹ پھوٹ کے عمل میں ایک بہت نمایاں تبدیلی جنم لیتی ہوئی دکھائی رے رہی ہے۔ یہ تبدیلی مجھے اِس شہر کی عوام کی سوچ میں نظر آرہی ہے کیونکہ وہ اپنی جان و مال کو خطروں میں ڈال کر اپنے گھروں سے باہر حق کی آواز کے لیے نکلی ہے۔ اِس تبدیلی کو ایک مثبت اور تعمیری رخ دینا ہماری سیاسی قیادت کا فرض ہے اور اگر اہل فکر و دانش اپنی ذاتی مصلحتوں سے بے نیاز ہو کر سچ کا ساتھ دینے لگیں تو پھر تمام سیاسی قیادت بھی سچائی کا ساتھ دینے پر مجبور ہوجائے گی۔ اور یہی وہ لمحہ ہے جب ہمیں کراچی کی عوام کی آواز میں اپنی آواز ملانی چاہیے۔