Thursday, August 29, 2013

Column of Syed Aamir Shah 1

ووٹ کی اہمیت اور ہمارا کردار
کالمسٹ:سید عامر شاہ

الیکشن الیکشن الیکشن----- آج کل ہر طرف نظر دوڑائیجائے تو ہر زبان پر یہی لفظ ملے گا۔ اگر ووٹر سے پوچھا جائے کہ اُس کے ہاں الیکشن اور اُس کے قیمتی ووٹ کی اہمیت کیا ہے تو کچھ مخصوص الفاظ کہہ دینے کے بعد وہ یقیناً خاموش ہو جائے گا۔ اُس کا یہی کہنا ہوگا کہ وہ اپنے پسندیدہ قائد کو ووٹ دے گا مگر حیرت انگیز طور پر اُسے اپنی پارٹی کا منشور ہی معلوم نہیں ہوگا؟۔ مجھے خدشہ ہے بہت سے لوگ اخبارات اور ٹی وی میں رنگین اشتہارات دیکھ کر اپنے ووٹ کو قربان کر دیں گے۔ کاش اُنھیں یہ معلوم ہوجائے کہ جو اشتہارات وہ اپنے ٹی وی چینل پر دیکھ رہے ہیں وہ اُن کے ہی پیسوں سے تیار ہوتے ہیں۔ انکم ٹیکس اور سیلز ٹیکس کے علاوہ دیگر ٹیکس سے جب ہمارا قومی خزانہ بھر جاتا ہے تو ہر سیاستدان اپنی سیاست سے اُسے ایسے صاف کرتا ہے جیسا گدھے کے سر سے سینگ

وجودِ پاکستان سے لے کر اب تک ہر پارٹی کوئی نہ کوئی مہم چلا کر عوام کو ہمیشہ بیوقوف بناتی آئی ہے۔ مگر آج بھی مجھے وہی دور نظر آرہا ہے جب ہمارے لوگ پرٹیوں کے جال میں آکر اپنا ووٹ ٹھیک انسان کے بجائے اُس انسان کے حوالے کر دیتے تھے جو صرف نام کی سیاست کرنا جانتے ہیں۔ بس آج بھی بزرگ اور جوان برادری جلسوں کی شکل میں مختلف پارٹیوں کے جھنڈے لیے سڑکوں میں نعرے لگاتے نظر آتی ہے۔ کیا یہی ہے “اُمیدِ سحر” جس کا خواب ہم الیکشن 2013ء میں دیکھنا چاہتے ہیں؟۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پچھلی حکومت میں بھی اِسی طرح کی سرگرمیوں میں مصروف تھے۔ اور الیکشن کے بعد اِنہی لوگوں کو آٹے اور سرکاری لائنوں میں دیکھاگیا تھا۔ تو کوں یہ کہہ سکتا ہے کہ تبدیلی آنے والی ہے؟۔
اگر تبدیلی آتی تو رواں الیکشن میں عوام خاموش تماشائی بن کر ہمارے حکمرانوں کوسایت کے اکھاڑے میں لڑتا دیکھتی۔ پھر جو پارٹی حقیقی معنوں میں الیکشن کے حصول کی حقدار ہوتی تو اُسی کو ہمارا قیمتی ووٹ دیا جاتا۔مگر ہائے افسوس ---- دورِجہالت کی یہ عوام وہ غلطی کرنے جاری ہے جو وہ 65 سالہ دور میں بار بار دوہراتی آئی ہے۔ آج بھی پاکستان کے تمام صوبوں میں ہر مرکزی جماعت اپنی مضبوظ جڑیں جمائے بیٹھی ہے۔ سابقہ حکومت میں اگر ہر صوبے پر توجہ دے جائے تو نتائج یہ تھے کہ ہر صوبے میں ایک ہی پارڑی کی حکومت تھی۔ ایسا لگتا تھا کہ 2008ء کے الیکشن میں ایک حکومت نہیں بلکہ ہر صوبے میں مختلف حکومت دیکھائی دے رہی تھی۔
نجانے وہ سیاستدان انصاف پسند تھے یا نہیں مگر اُنھیں ہر حال میں اپنے صوبے میں اپنی روایتی حکومت قائم کرنا تھی۔ وہ ایسا کرسکتے تھے کیونکہ ہماری عوام اپنے فائدے اور نقصان کی جنگ میں آج تک مصروف ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ووٹ اور اپنے کردار کو سمجھیں۔ پچھلے الیکشن کی طرح صرف 45 فیصد لوگ ہی ووٹ ڈالنے گئے تھے۔ تاہم نتائج ہمارے سامنے ہیں۔ اب ہمیں حوش کے ناخن لینا ہوں گے۔ الیکشن والے دن تعطیل ہے اور اِس چھٹی کو ہمیں گھر بیٹھ کر ٹی وی اور اخبارات کی نظر نہیں کرنا چاہیے۔ ہم نے اِس دن بھی سستی کا مظاہرہ کیا تو لوگوں سنو---- پھر یہ نہ کہن کہ پاکستان میں بجلی کا مسئلہ ہے، کرپشن ہے جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی، کھانے کو آٹا اور جلانے کے لیے گیس نہیں، گھر سے باہر جان ومال کاخطرہ ہے، یہ روز روز حکمتی سطح پر چھٹیاں کیوں ہوتی ہیں، یہ ڈرون حملوں اور دھماکوں سے انسانی زندگیاں کیوں برباد ہو رہی ہیں، ہماری معیشت دن بدن گرتی جارہی ہے، اور ہمیں اُمیدِ سحر نہیں مل سکی۔ اِس لیے ہماری عوام کو چاہیے کہ وہ 11مئی2013ء کو اپنا ووٹ اُس پارٹی کو دے جسے وہ ہر نظریئے سے جانتی ہو۔ پاکستان کی تقدیر ایک ایک ووٹ کے اندر محفوظ ہے اور ہر ووٹ ہر انسان کی طاقت ہے۔ مخالفین ممالک ہمارے ملک کو توڑنے کی سازشوں میں ملوث ہیں۔ تاہم اُن کے لیے ایک شعر ہے۔

”دنیا نے تجروبات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ دیا تھا اُسے لوٹا رہا ہوں میں


یعنی اگر ہم نے اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کیا تو ہمارے اِس فعل سے حریف ممالک کے دانت کٹھے ہو سکتے ہیں۔ اِسی ملک نے ہمیں ایک الگ شخصیت دی اور آج دنیا میں ہمیں ایک الگ پہچان سےجانا جاتا ہے۔ خدارا اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں یقیناً آپ کے ووٹ سے اِس بگڑتے ہوئے ملک کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ اُمیدِ سحر کے لیے ہماری پہچان ہمارا ووٹ ہے اور اِسی ووٹ کے ساتھ ہمارے ملک کی ترقی وابستہ ہے۔ میرا یہ پیغام میرے قارئین کو مل جائے تو میں سمجھوں گا کہ میرا پاکستان مستقبل قریب میں قائداعظم والا پاکستان کہلائے گا۔ انشاء اللہ 

No comments:

Post a Comment