اسلام میں صحافت کا تصور
کالمسٹ: عاطف الرحمٰن
لفظ صحافت مشن بھی ہے اور کاروبار بھی ، صحافت ایسی ہونی
چاہیے جو باوقار ہو اور عوام اُسے پسند کرئے ، پاکستان کی تاریخ میں ہمیں عظیم
صحافیوں کا تصور ملتا ہے جیسے سر سید احمد خان ، مولانامحمد علی جوہر ، ابوالکلام آزاد
اور ظفر علی خان۔ صحافت کی کئی اقسام ہیں جس میں اخبارات بھی شامل ہیں اخبارات
خبروں کا مجموعہ ہوتے ہیں جہاں تک کہ اخبارات کا تعلق ہے اُس کا سلسلہ شروع میں کم
تھا کیونکہ پریس ایجاد نہیں ہوا تھا بعد میں جنگ عظیم اول اور دوئم میں اخبارات کی
اہمیت اور زیادہ بڑھ گئی۔
اسلامی صحافت میں صحافت کا مقصد یہ ہے کہ تعمیر ملت ہو،
نیکی کی تلقین کی جائے اور برائی سے روکا جائے قوم کو صحیح اطلاعات سے آگاہ کیا
جائے اور ہوا کے رخ کے مطابق نہ چلا جائے بلکہ وہ قوم کی سچائی کے ستھ موقع دے کہ
وہ حقیقت کی تہہ تک پہنچ سکے۔ اسلامی صحافت کا ایک اور نمایاں پہلو یہ ہے کہ اِس
میں زرد صحافت کا قطعی طور پر کوئی تصور نہیں۔ اِس میں کمرشل ذہنیت کا کوئی تصور
نہیں اور جتنے بھی فلمی ایکٹر ہیں یا ایکٹریس اُن تمام کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ
گندی اور فحاش فلمیں شائع کرکے زیادہ سے زیادہ پیسہ کمایا جائے لیکن اسلامی صحافت
میں اِس قسم کا کوئی تصور نہیں۔
تھے۔ Outstanding Social Reformerمحمد ﷺ
بنی اکرم اِس دنیا میں انقلاب لائے جبکہ اُس وقت نہ پریس
تھا نہ ریڈیو نہ اخبار تھے۔ بنی اکرمﷺ نے اِ ن تما م رکاوٹوں کے باوجود اللہ
تعالیٰ کا پیغام کو کونے کونے تک صحابہ کرام ؓ کے ذریعے پہنچایا۔ اگر صحافی حق
گوئی سے کام لیتا ہے تو وہ ملک کی خاطر، دین کی خاطر، ملت کی خاطر تو اُس میں کسی
بھی فرد کی بہتری کو پیشِ نظر نہیں رکھا جاتا بلکہ اُس میں تمام اجتماعی بہتری کو
پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔
ایک اور چیز ہےجسے آج کے زمانے میں آزادی اظہاری کہا جاتا
ہے قرآن اُسے دوسری زبان میں بیان کرتا ہے مگر دیکھتے ہیں مقابلتاً قرآن کا کتنا بلند تصور ہے قرآن کا
ارشاد ہے کہ ”امرالمعروفہ“ اور ”نہی عن المنکر“ نہ صرف انسان کا حق ہے بلکہ یہ اُس
کا فرض بھی ہے قرآن کی رو سے بھی اور احادیث کی ہدایات کے مطابق۔ انسان کا یہ فرض
ہے کہ وہ بھائی کے لیے لوگوں کو کہے اور برائی سے روکے۔ اگر کئی برائی ہو رہی ہو
تو صرف یہی نہیں کہ بس اُس کے خلاف آواز اُٹھائے بلکہ اُس کے انسداد کی کوشش بھی
فرض ہے مسلمان کا فرج ہے کہ وہ اسلامی معاشرے کا پاکیزہ رکھے۔
معزبی صحافت ہماری منزل نہیں ہے آج کل نیوز چینل اور اخبار
تک سرکولیشن میں اضافے کی پالیسی استعمال کرتا ہے صحافی کو چاہیے کہ وہ تحقیقات
کے بارے مین نیوز شائع نہ کرئے اسلام میں ہر شخص کو تحفظ حاصل ہے کہ تحقیق کے بغیر
اُس کے خلاف کاروائی نہ کی جائے گی اِس سلسلے میں قرآن کی واضح ہدایت ہے کہ کسی
خلاف اطلاع ملنے پر تحقیقات کرلو تاکہایسا نہ ہو کہ کسی گروہ کے خلاف لاعلمی میں
کوئی کاروائی کر بیٹھو۔
No comments:
Post a Comment