Thursday, August 29, 2013

Column of Syed Aamir Shah 3

تعلیم اور ہمارا نظامِ تعلیم
کالمسٹ: سید عامر شاہ

1857ء کی جنگ آزادی کے بعد بہت سے لوگوں نے یہ جان لیا کہ برصغیر میں مسلمانوں کو وہ درجات حاصل نہ تھے جو اُنھیں صدیوں پہلے مل چکے تھے۔ سر سید احمد خان ؒ اولین مفکرہیں جسے شروع شروع میں اہل برصغیر کے تمام مسلمانوں نے اپنا دشمن مان لیا تھا، تاہم اُن کی کاوشوں سے ہی آج ہمیں اپنی ایک الگ شناخت ملی ہے۔ وہی ہمارے لیے اُمید ِسحر کی پہلی کرنیں قلم کے زریعے لائے تھے۔ جب اُنھوں نے انگریزی زبان کو مسلمانوں کے لیے ضروری سمجھا تو وہیں سے ہمیں آزادی کی پہلی کرنظر آئی۔ پھر شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبالؒ نے 1930ء میں خطہ الہ آباد کے مقام پر آل انڈیا مسلم لیگ کے اجلاس میں اُن کے ادھورے خوابوں کو ایک بار پھر اُجاگر کیا۔ اُن کا کہنا یہ تھا۔
”مجھے تو ایسا نظر آتا ہے کہ اور نہیں تو شمال مغربی ہندوستان کے مسلمانوں کو بالآ خر ایک منظم اسلامی ریاست قائم کرنا پڑے گی اور اگر ہم چاہتے ہیں کہ اِس ملک میں اسلام بحیثیت ایک تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اِس کے لیے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کریں۔ میں صرف ہندوستان اور اسلام کی فلاح و بہبود کے خیال سے ایک منظم اسلامی ریاست کے قیام کا مطالبہ کر رہا ہوں۔“
یہ مطالبہ اسلام کے کردار کا بحیثیت ایک اخلاقی انصب العین تو ضرور تھا، تاہم پھر 23مارچ 1940ء منٹو پارک میں کچھ اور مطالبات نے جنم لیا اور یوں ہمیں صرف 7 سالوں کی مختصر جدوجہد سے ایک الگ اور خود مختیار وطن نصیب ہوا۔ میں نے گذشتہ لائنوں میں جن جاذبِ نظر شخصیات کو یاد کیا ہے، وہ تمام اشخاص صرف تعلیم اور قلم ہی کی بنیاد پر ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے بطورِمسیحا کام آئے تھے۔ اگر دیگر مسلمانوں کی جگہ وہ بھی علم کی روشنی سے محروم ہوتے تو یقیناً ہمیں خوبصورت محل وقوع کے لحاظ سے پاکستان جیسا ملک کبھی میسر نہ ہوتا۔علم کی ترتیب و تدوین کی بدولت سر سید احمد خانؒ سمیت ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظمؒ جیسے لوگوں نے ہمیں وہ کام کر دکھایا جسے ہم اپنی زبان میں اگر معجزا کہیں تو یہ غلط نہ ہوگا۔ دنیائے عالم میں پاکستان واحد ملک ہے جسے صرف مذہب ، علم اورقلم کے زور پر ہی ہندوستان کے ہزاروں لوگوں سے الگ کیا گیا تھا۔ مگر آج کیا ہم اُس مذہب، علم اور قلم کو صحیح طریقے سے استعمال کر رہے ہیں؟۔
اِس کا جواب تو اب شاید میرے پاس بھی نہیں کیونکہ مجھے قلم پکڑنی تو آتی ہے مگر اُسے چلانا میرے بس کی بات نہیں۔ ہماری تعلیم میں اب شاید وہ جذبہ نہیں رہا جس سے پہلے کبھی ہم آشنا تھے۔ پاکستان کے اساس میں نظریہ پاکستان کو بہت اہم مقام حاصل ہے لیکن کیا آج ہم نظریہ پاکستان کا مطلب جانتے ہیں ؟۔ ہمارے قومی ہیروز بظاہر تو یہ چاہتے تھے کہ پاکستان میں اسلام کے ساتھ لوگ تعلیم سے بھی واقف ہو جاتے اور وہ دنیا کے معروف لوگوں کا مقابلہ کرتے۔ لہذا اُن کے نظریات تو آج بھی کتابوں اور خطوں میں زندہ ہیں اور بظاہر پاکستان کی قوم دنیا کے معروف لوگوں سے مقابلہ کرتی آرہی ہے۔ بس فرق صرف اتنا ہے کہ قلم کی جگہ کیبل اور پڑھائی کی جگہ لا پرواہی آچکی ہے۔ انصاف کی جگہ بے انصافی اور حلال کی جگہ حرام اپنی اپنی جگہ بدل چکے ہیں۔ جس ملک کو ہم اپنا روایتی حریف سمجھتے ہیں اُسی کی تمام فلمیں، ڈرامے اور چٹ پٹی باتیں ہمارے ہی ملک میں پائی جاتی ہیں۔ بولی وڈ سے مشابہت رکھتے ہوئے ہم یورپ سمیت ساوتھ اورنارتھ آمریکہ سے بھی پیچھے نہیں۔فیس بک، ٹیوٹٹر اورلاتعداد سوشل ویب سائٹز کے زریعے ہماری ہر معلومات اب اُن کے پاس موجود ہے۔ کہتے ہیں 600ء سے لے کر 1600ء تک تعلیمی دور مسلمانوں کے پاس تھا مگر پھر عروج سے زوال کے بعد آج ہم کچھ اتنے مفلس اور ناتواں ہوچکے ہیں کہ ہم اپنے ہی ملک میں اپنی تعلیمی معیار کے ساتھ بذاتِ خود کھیل رہے ہیں۔ ہم نے صرف تعلیم اور قلم کی قدر چھوڑی اور اُنھوں نے اسی تعلیم اورقلم کی قدر کی، جنانچہ فیصلہ آج آپ لوگوں کے سامنے ہے۔
پاکستان میں سب سے زیادہ بولی وڈ اور ہولی وڈ کی ویب سائٹز دیکھی جاتی ہیں۔ کیوں نہ دیکھی جائیں، اُنھیں دیکھ کر تو ہمیں لگتا ہے کہ وہ لوگ ہم سے ہر معاملے میں کئی قدم آگے ہیں۔ تو کیا کبھی ہم نے اپنے کم ترقیافتہ ملکوں کی طرف نظر دوڑائی ہے؟جنہیں اگر صبح کا کھانا نصیب ہوتا ہے تو رات کا کھانا پیدا کرنا اُن کے لیے بہت مشکل کا م ہوتا ہے۔ آمریکہ جو آج کل کے زمانے کا سپر پاوور کہلاتا ہے ، اُس کے اپنے ہی بیشتر شہروں میں کئی لوگ بھوک سے دم توڑ جاتے ہیں۔ اور جہاں تک رام ، بھگوان، ہنومان اور عشور والے ملک بھارت کی بات ہے تو رقبے کے لحاظ سے وہ یقیناً ہمارے ملک سے کافی بڑا ہے مگر کیا کبھی ہم نے اُس کی بڑھتی ہوئی خطیر آبادی پر غور کیا ہے ؟۔ اپنی بڑھتی آبادی کے لحاظ سے پوری دنیا میں اُس کا نام دوسرے نمبر پر ہے جبکہ ہم اپنے ملک کو غریب اور مفلس سمجھتے ہیں۔ بھارت کے صرف دوشہر یعنی نئی دہلی اور ممبئی کی آبادی ہمارے ملک کی تمام آبادی سے کافی زیادہ ہے۔ لہذا ہم کیوں ایک طرفہ سوچ کے حامل ہیں ؟۔ آخر ہمیں حقائق نظر نہیں آتے ؟۔ شاید اِس لیے کیونکہ  ہم سے لاشعوری طور پر قلم کی اہمیت کھو چکی ہے۔
تعلیم کا پاتال کیا ہے ؟ چلیں اِس پر کچھ سوچتے ہیں۔ میرے ملک میں معیارِ تعلیم کچھ اِس قدر مسمار ہو چکی ہے کہ کسی صاحبِ مضمون سے پوچھا جائے کہ دیوانِ غالب کس نے لکھا ہے تو ہمیں جواب ”پتہ نہیں“ میں ملے گا۔ ایم ایس سی فزکس کی ڈگری لینے والے طلبات کو بجلی کا فیوز تک لگانا نہیں آتا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ ہماری قوم کے طالب علم ہاتھوں میں اپنے تعلمی کاغذات کے پرزے لے کر نوکریوں کی لائنوں میں لگے رہتے ہیں۔ عرصہ دارز میں لوگوں کے پاس ڈگریاں اور اسناد موجود تو نہیں تھے مگر رسمی علم اور تعلیم ضرور تھی۔ مگر آج ہم اپنے ملک کی عوام کا تعلیمی حال دیکھیں تو لوگ جاہل مطلق، کتابِ دشمن اور ایک عدد ڈگری نقل یا نوٹس کی مدد سے پاس کرلیتے ہیں۔ ایسے ہی کئی انسان سے اگر پوچھا جائے کہ اُس نے ایم اے یا ایم ایس سی میں کسی اوریجنل کتاب کامطالعہ کیا ہے تو یقیناً ہمیں یہ جواب ملے گا کہ سوائے کچھ نوٹس اور خلاصوں کے اُس شخص نے تقریباً ایک کتاب کا بھی مکمل طور پر مطالعہ نہیں کیا ہوگا۔
تعلیمی نظام کو بر باد کرنے میں سب سے بڑا ہاتھ کمزور اور غریب ملکوں کے تجارتی رویوں کا ہے جو خلوصِ علم کی نہیں بلکہ ڈگریوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں۔ اِس لیے ہمارے ملک کی تمام لڑکیاں اور لڑکے اچھی جی پی اے یعنی گریڈ، پوئنٹ اوراوریج کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جاتے ہیں۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ جب وہ اچھی جی پی اے لے کر پروفیشنل لائف میں آتے ہیں تو اُنھیں پاکستان میں اچھی نوکریاں بھی مل جاتی ہیں کیونکہ قحط الرجال ہے۔ پھر وہ نئی نسل کو بھی وہی طریقہ بتاتے ہیں جو اُنھوں نے اختیار کای ہوتا ہے۔ اگرچہ ہمارے بڑے ہی اگر ایسے کاموں کو درست سمجھ لیں تو دورِ وقت کی اِس نسل کا کیا ہوگا ؟۔ ہماری اُمیدِ سحر کا کیا ہوگا ؟۔ مغربی ممالک کے حوالے سے شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال ؒ کے اِس اہمیت خیز شعر سے میں اپنی اِس جاری و ساری قلم کا سلسلہ ختم کرتا ہوں۔
”سورج ہمیں ہر شام یہ درس دیتا ہے اقبالؔ
کہ مغرب کی طرف جاؤ گے تو ڈوب جاؤ گے“

1 comment:

  1. Best content & valuable as well. Thanks for sharing this content.
    Approved Auditor in DAFZA
    Approved Auditor in RAKEZ
    Approved Auditor in JAFZA
    i heard about this blog & get actually whatever i was finding. Nice post love to read this blog
    Approved Auditor in DMCC

    ReplyDelete